268

ایشین چیمپئن ٹرافی ڈھاکہ و موجودہ پاکستان ہاکی میں ایمپائرنگ کی اہمیت..تحریر: سہیل اکرم جنجوعہ

ایشین چیمپئن ٹرافی ڈھاکہ و موجودہ پاکستان ہاکی میں ایمپائرنگ کی اہمیت…!
تحریر: سہیل اکرم جنجوعہ

جیساکہ حال ہی میں بنگلا دیش کے شہر ڈھاکہ میں ایشیئن چیمپئن ہاکی ٹرافی منعقد ہوئی…جس میں ایشیاء کی پانچ طاقتور ٹیموں نے حصہ لیا..جبکہ ملائشیا ہاکی ٹیم کویڈ کے ایس او پیز کے پیش نظر حصہ نہیں لے سکی… بعد ازاں سخت و دلچسپ مقابلوں کے بعد چیمپئین ٹرافی کی فاتح ٹیم جنوبی کوریا قرار پائی…پاکستان ہاکی ٹیم کی ایونٹ میں شرکت سے کچھ دن قبل ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے کوچ Siegfried Aikman نے قومی ہاکی ٹیم کو جوائن کیا وقت کی کمی کے باعث وہ ٹیم کے ساتھ زیادہ ٹائم نہیں گزار سکے اور ان کو فوراً ٹیم کے ساتھ بنگلہ دیش پہلی ہی اسائنمنٹ پر جانا پڑا اسکے باوجود Siegfried Aikman کے آنے سے پاکستانی پلیئرز نے اس پورے ایونٹ میں اٹیکنگ ہاکی کھیلی اور فیلڈ گول اسکور کیے اور اپنے مدمقابل ٹیموں کے ساتھ خوب مقابلہ کیا اس پورے ایونٹ میں پاکستان ٹیم پنالٹی کارنر میں بہت کمزور دکھائی دی ..جس کے باعث متعدد مواقع ملنے کے باوجود پنالٹی کارنر کے دوران زیادہ گول سکور کرنے میں ناکام رہی اور جیت کے کئی مواقع ضائع کیے . تمام میچز میں پاکستان کی کارکردگی کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو اس سے قطع نظر پاکستان کی چوتھی پوزیشن آئی پھر بھی میں پاکستانی ٹیم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مستقبل میں پاکستان ٹیم سے بہتر پرفارمنس کی امید رکھی جاسکتی ہے… ایونٹ کے تمام میچز میں پلیئرز کا ڈسپلن کا فقدان نظر آیا جس کی وجہ سے متعدد بار ایمپائر کے ساتھ بحث و تکرار شائقین ہاکی کو دیکھنے کو ملی. جس کی وجہ سے پاکستانی پلیئرز کو گرین اور یلو کارڈ بھی ہوتے رہے اور اس کا نقصان پوری ٹیم کو ہوا اس بات کا ذکر پاکستان کے کوچ Siegfried Aikman نے بھی چمپین ٹرافی کے دوران کئی بار میڈیا ٹاک کے دوران بھی اس بات کا ذکر کیا Aikman کے مطابق جو ٹیم جتنا ڈسپلن میں اچھی ہوگی وہ ٹیم اتنی ہی بہترین پرفارمنس کیساتھ کامیابی کی طرف آسانی سے جا سکتی ہے.
…لیکن Siegfried Ekman کو یہ بات کون سمجھائے کہ ہمارے ڈومیسٹک لیول کےایونٹ میں زیادہ تر پلیئرز،کوچز اور منیجرز کو یہ احساس کبھی نہیں ہوا کہ ٹیم کا ڈسپلن میں ہونا کتنا اہم و ضروری ہوتا ہے اور آج تک فیڈریشن یا ٹورنامنٹ ڈائریکٹر اور امپائر منیجر کی جانب سے کسی بھی پلیئر یا کوچ و مینیجر کو ایمپائر کے ساتھ الجھنے پر کبھی کوئی سرزنش دیکھنے کو نہیں ملی حالانکہ دیگر ممالک میں اس حوالے سے باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے.
میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ایمپائر سے کوئی غلطی نہیں ہو سکتی. کیونکہ جو پریشر ایمپائر کے اوپر میچ کے دوران ہوتا ہے اس سے غلطی کا بھی امکان رہتا ہے لیکن اس کو سدھارنے کا بھی کوئی طریقہ ہوتا ہے یہ اخلاقی و قانونی طور پر درست نہیں کہ آپ ایمپائر سے بحث اور جھگڑا شروع کر دیں کیونکہ ہمارے ڈومیسٹک اسٹرکچر میں یہ بات عام ہے کہ ہر بندہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ عقل کل ہے ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کہہ رہا ہے یا کر رہا ہے وہ ٹھیک ہے باقی سب غلط ہے جب ڈومیسٹک لیول پر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے گا کہ ایمپائر کے شعبے میں ہمیں بہت کام کرنا ہوگا اور ایمپائرنگ کے شعبے میں بہتری لانے کیلئے ضروری ہے کہ ڈومیسٹک کے کسی بھی اچھے ایونٹ میں ایمپائرز کی تعیناتی میرٹ پر ہو نہ کہ سفارش پر اور ایمپائرز کی ایونٹ کے اختتام پر جو بھی رپورٹ بنے اس کے مطابق ان کی کسی بھی اگلے ایونٹ میں شرکت ہو اود پاکستان ہاکی ٹیم کا جب بھی کوئی کیمپ لگے تو اس میں کلب لیول کے ایمپائرز کی بجائے انٹرنیشنل اور نیشنل Aگریڈ امپائرز کو لگایا جائے جن کو ہاکی کے جدید رولز کی آگاہی ہو اور وہ کسی خوف و جھجک کے بغیر نیشنل ٹیم کی تیاری میں مدد کر سکیں ہمیں یہ بات بھی سمجھنا ہوگی کہ کسی بھی ایونٹ میں پاکستانی ایمپائرز اور ٹیکنیکل آفیشلز کی عدم شرکت سے بھی انٹرنیشنل ہاکی میں پاکستان ہاکی کا نقصان ہے ہمیں پاکستان میں ہاکی پلیئر کے ساتھ ساتھ ایمپائرنگ کے شعبے میں بھی کام کرنا پڑے گا جو کہ عملی کام ہو نہ کہ صرف دفاتر یا کاغذوں کی حد تک رہے ۔ ایمپائرنگ ایک ایسا شعبہ ہے جس کے ساتھ پاکستان ہاکی کا مستقبل جڑا ہوا ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم ڈسپلن میں رہے اور اچھا پرفارم کرے تو ڈومیسٹک ایونٹ پلیئرز کے ساتھ ساتھ ایمپائرنگ کے شعبے پر بھی کام کرنا بہت ضروری ہے .ہمیں کوالٹی پلیئرز کے ساتھ ساتھ کوالٹی امپائرز بھی بنا نے پڑیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں